مدحِ ناقہ سوار لایا ہوں

مدحِ ناقہ سوار لایا ہوں

چند لفظوں کے ہار لایا ہوں


میں تہی دست اور کیا لاتا

دیدۂ اشکبار لایا ہوں


بہرِ مدحت حروف قد آور

آیتوں سے ادھار لایا ہوں


زرد موسم تھا دل کے آنگن میں

ان کے در سے بہار لایا ہوں


غازۂ روئے دو جہاں کے لئے

سنگِ در کا غبار لایا ہوں


کوئے رشکِ جناں کی ہر شے کا

عکس دل میں اتار لایا ہوں


کاسۂ دل میں ان کی چوکھٹ سے

راحتیں بے شمار لایا ہوں


بخشوانے کو آستانے پر

میں گناہوں کا بار لایا ہوں


وصل اشفاقؔ ہے پسِ فرقت

ہجر کو سوئے دار لایا ہوں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

ادب گاہِ دوعالم ہے یہاں دستک نہیں دیتے

میرے محبوب آئے رحمتاں بہار ہو گیّاں

سارے عالم میں خدانے آپ کو یکتا کیا

لبہائے مصطفےٰ سے وہ مِل کر چمک اُٹھا

نبیؐ کی محبت میں راحت بڑی ہے

اکھاں دی قید چوں جد اشک رہا ہُندے نیں

چلو مدحت سنا دیں ہم کہ ہیں میلاد کی خوشیاں

ہے تم سے عالم پرضیا ماہِ عجم مہرِ عرب

طیبہ دے پر کیف منظر تے بہاراں نوں سلام

یہ کس شہنشہِ والا کی آمَد آمَد ہے