محمد لب کشا ہوں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں

محمد لب کشا ہوں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں

فدا اُن کے لبوں پر گُل جہاں سے پھول جھڑتے ہیں


مرے بامِ تصور سے گزرتا ہے خیال اُن کا

یقیں مانو مرے وہم و گماں سے پھول جھڑتے ہیں


یہ جنت مصطفٰی کی مسکراہٹ کا نتیجہ ہے

جہاں سرکار ہستے ہیں وہاں سے پھول جھڑتے ہیں


ذرا سوچو وہ آ جائیں تو پھر ماحول کیسا ہو

ابھی سب منتظر ہیں تو یہاں سے پھول جھڑتے ہیں


کوئی ایسا نہ سمجھے ابر برسا شہرِ طیبہ میں

حسِیں گنبد سے لگ کر آستاں سے پھول جھڑتے ہیں


تصور ایک لمحے کو نکالو جانِ عالم کا

تو پھر دیکھوں میں دنیا میں کہاں سے پھول جھڑتے ہیں


گنوا کر جان پہرہ دے جو عاشق اُن کی حرمت پر

اُس عاشق کیلئے نوکِ سناں سے پھول جھڑتے ہیں


جبِیں پر بل جو آ جائے بھڑک اٹھتی ہے دوزخ بھی

تبسم وہ کریں تو کہکشاں سے پھول جھڑتے ہیں

دیگر کلام

شاہِ ہر دوسرا ہیں رسُولِ خُدا

ہر حَال میں انہیں کو پکارا جگہ جگہ

ایتھے اوتھے کل جہانیں درد غماں نے گھیر لئی

رحمت دو جہاں پر سلام

اک مسافر بعد تکمیلِ سفر واپس ہوا

کر نظر کرم دی محبوبا ہُن درد سوائے ہو گئے نے

نسلِ حق کی باتیں کر کر کے جئیں تو نعت ہو

تم ہی ہو چین اور قرار اِس دلِ بے قرار میں

ہم پر کرم فرماتے رہنا

’’حضور آپ کی سیرت کو جب امام کیا‘‘