مجھ کو درپیش ہے پھر مُبارَک سفر

مجھ کو درپیش ہے پھر مُبارَک سفر

قافِلہ اب مدینے کا تیّار ہے


نیکیوں کا نہیں کوئی تَوشہ فَقَط

میری جھولی میں اَشکوں کا اِک ہار ہے


کچھ نہ سَجدوں کی سوغات ہے اور نہ کچھ

زُہد و تقویٰ مِرے پاس سرکار ہے


چل پڑا ہوں مدینے کی جانِب مگر

ہائے سر پر گناہوں کا انبار ہے


جُرم و عِصیاں پہ اپنے لَجاتا ہوا

اور اَشکِ نَدامت بہاتا ہوا


تیری رَحمت پہ نظریں جماتا ہوا

در پہ حاضِر یہ تیرا گنہگار ہے


تیرا ثانی کہاں ! شاہِ کون ومکاں

مجھ سا عاصی بھی اُمّت میں ہوگا کہاں!


!تیرے عَفْو و کرم کا شہِ دو جہاں

کیا کوئی مجھ سے بڑھ کر بھی حقدار ہے؟


یانبی! تُجھ پہ لاکھوں دُرُود و سلام

اس پہ ہے ناز مجھ کو ہوں تیرا غلام


اپنی رحمت سے تُو شاہِ خیرُالانام

مجھ سے عاصی کا بھی ناز بَردار ہے


مجرِموں کو شہا! بخشواتا ہے تُو

اپنی اُمّت کی بگڑی بناتا ہے تُو


غم کے ماروں کو سینے لگاتا ہے تُو

غمزدوں بے کَسوں کا تُو غمخوار ہے


سَروَرِ انبیاء رحمتِ دوسَرا

تُوہی مُشکِل کُشا تُو ہی حاجت روا


جب بھی سَر پر مِرے کوئی ٹُوٹی بَلا

اِذنِ رب سے تُو میرا مددگار ہے


زیرِ جِسمِ مُبارَک کبھی بوریا

ہاتھ تَکْیہ ہے بستر کبھی خاک کا


جان و دِل سادَگی پر ہوں اُس کی فِدا

جو کہ سارے رسولوں کا سردار ہے


دو تڑپنے کا آقا قرینہ مجھے

دے دو خسْتَہ جِگر چاک سینہ مجھے


چشمِ تر دے دو شاہِ مدینہ مجھے

تیرے غم کا یہ بندہ طلب گار ہے


ٹھوکریں دَر بَدر کب تک اب کھاؤں میں

پھر مدینے مُقدَّر سے جب آؤں میں


کاش! قدموں میں سرکار مرجاؤں میں

یانبی! یہ تمنائے بدکار ہے


سُنّتیں مصطَفٰے کی تُو اپنائے جا

دِین کو خوب محنت سے پَھیلائے جا


یہ وَصیَّت تُو عطارؔ پہنچائے جا

اُس کو جو اُن کے غم کا طلبگار ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

جب بھی دامان کو وا کرتے ہیں

تو نوازے اگر اے ذَوقِ نظارا مجھ کو

جمالِ گنبد ِ خضریٰ عجیب ہوتا ہے

یہ آرزو نہیں ہے کہ قائم یہ سر رہے

میرے آقا میرے سرور

کر رہی ہوں آپ کی مدحت سرائی یا نبی

اوتھے دل بس ایخو ای چاہوندا سی مسجدِ نبوی دے در و دیوار چُمّاں

روئے بدر الدجیٰ دیکھتے رہ گئے

انوار سے مہکتی زمیں جنت البقیع

جب خیالوں میں بلاغت کا صحیفہ اترا