یہ آرزو نہیں ہے کہ قائم یہ سر رہے

یہ آرزو نہیں ہے کہ قائم یہ سر رہے

مری دعا تو ہے کہ ترا سنگِ در رہے


اے ساقی تیری خیر ، ترے میکدے کی خیر

ایسی پلا کی جس کا نشہ عمر بھر رہے


فرقت کی سختیاں مجھے منظور ہیں مگر

اتنا ضرور ہو کہ تجھے بھی خبر رہے !


اے جانِ جاں تو ہی تو ہے مقصُودِ کائنات

میرا نشاں رہے نہ رہے تو مگر رہے


اعظمؔ یہ آرزو ہے کہ مرنے کے وقت بھی

صورت حضورؐ کی مرے پیشِ نظر رہے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

آمدِ مصطَفیٰ مرحبا مرحبا

خوشنودیٔ رسول ہے الفت حسین کی

تسبیح شب و روز رہے نامِ خدا کی

دیکھتے کیا ہو اہل صفا

اے عرب کے تاجدار، اہلاًوَّسَہلاًمرحبا

تیرا بندہ تری توصیف و ثنا کرتا ہے

سرِ میدانِ محشر جب مری فردِ عمل نکلی

صبا درِ مصطفی ﷺ تے جا کے

میری زندگی کا تجھ سے یہ نظام چل رہا ہے

کرم تیرے دا نہ کوئی ٹھکانہ یا رسول اللہؐ