نہ اس جانب نظر رکھنا نہ اُس جانب نظر رکھنا

نہ اس جانب نظر رکھنا نہ اس جانب نظر رکھنا

کوئی مشکل پڑے تو تم نظر سرکار پر رکھنا


جو بچنا چاہتے ہو تم غم دنیا و عقبی سے

تو ان کی یاد کو دل میں بسا کر عمر بھر رکھنا


خزانے رحمت حق کے جہاں کو بانٹنے والے

طلب گار کرم ہوں مجھ پہ بھی آقا نظر رکھنا


خدا کے قرب کی منزل پر پہنچو گے بآسانی

نبی کا عشق تم اپنے ہمیشہ ہم سفر رکھنا


تری یادوں کی مشعل سے ہے میرے دل کا گھر روشن

ہوائے غیر سے آقا بچا کر میرا گھر رکھنا


نبی کے آستاں کی حاضری کا تھا عجب عالم

زباں سے کچھ نہ کہنا اور وہ آنکھوں کا تر رکھنا


ادھر رکھنا ادھر رکھنا جہاں سرکار کی مرضی

مگر اک عرض ہے میری جدھر رکھنا خبر رکھنا


تری نعتوں نے بخشی ہے نیازی کو بڑی عزت

مرے آقا سر محشر بھی اس کو معتبر رکھنا

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

شجر و برگ و حجر شمس و قمر دم یہ ان کا ہی بھرا کرتے ہیں

خود اپنا قصیدہ ہے نامِ محمد

مدینہ شہر میں اپنا قیام ہو جائے

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

بھُلایا ہے تجھے تو ہر گھڑی آزار لگتی ہے

ہاتھ میں دامانِ شاہِ دو جہاں رکھتا ہوں میں

محمّد ممجّد کی لب پر صدا ہے

بھردو جھولی مری یا محمدؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی

کیا بات مری سرکاراں دی

لبوں پر درود و سلام آ رہے ہیں