نعتِ سرور ہے شاعری میری

نعتِ سرور ہے شاعری میری

یوں ہی گزری ہے زندگی میری


تک رہا تھا میں سبز گنبد کو

’’دفعتاً آنکھ کھل گئی میری‘‘


دید ہو جائے سر کی آنکھوں سے

بڑھتی جاتی ہے تشنگی میری


دل یہ کہتا ہے دیکھ کر طیبہ

ختم ہوگی یہ بے کلی میری


خود اُنہی کو سنائے گی جا کر

چشمِ بے چین کی نمی میری


روضہ دیکھا ہے بار ہا گرچہ

پیاس لیکن نہیں بجھی میری


کاش ہوتی جلیل قبلِ اجل

کوئے طیبہ میں حاضری میری

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

وہ شان پائی کے نبیوں میں انتخاب ہوئے

آجا چمن دے مالیا بوٹے اداس نے

جو غلامِ شہِ ابرار ہُوا خوب ہُوا

عرش سے بھی ماورا آقا گئے

جہاناں دی رحمت میرا کملی والا

فتحِ قفلِ سعادت ہے کارِ ثنا

میں جو یُوں مدینے جاتا تو کچھ اور بات ہوتی

قبر میں پل بھر کو وہ آئے ہر سو پھیلا نور

وہ زمیں ہے اور وہ آب و ہوا ہی اور ہے

مرے مدنی کے طیبہ کی ہے پاکیزہ ہوا اچھی