نعمتیں بانٹتا جِس سَمْت وہ ذِیشان گیا

نعمتیں بانٹتا جِس سَمْت وہ ذِیشان گیا

ساتھ ہی مُنشِیِ رحمت کا قلم دَان گیا


لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دِھیان گیا

میرے مولیٰ مِرے آقا تِرے قربان گیا


آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تَمنّا ہی رہی

ہائے وہ دِل جو ترے دَر سے پُر اَرمان گیا


دِل ہے وہ دِل جو تری یاد سے مَعمور رہا

سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا


انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام

لِلّٰہِ الْحَمْد میں دُنیا سے مسلمان گیا


اَور تم پر مِرے آقا کی عنایت نہ سہی

نَجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی اِحسان گیا


آج لے اُن کی پناہ آج مدد مانگ اُن سے

پِھر نہ مانیں گے قِیامت میں اگر مان گیا


اُف رے مُنکِر یہ بڑھا جوشِ تَعَصُّب آخر

بِھیڑ میں ہاتھ سے کمبخت کے اِیمان گیا


جان و دل ہوش و خِرَد سب تو مَدینے پہنچے

تم نہیں چلتے رضاؔ سارا تو سامان گیا

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا

مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مَرے دِل سے

مصطفٰی خیرُالْوَرٰے ہو

مژدۂ رحمت حق ہم کو سنانے والے

نہ آسمان کو یوں سرکَشیدہ ہونا تھا

نظر اِک چمن سے دو چار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے

وہ سُوئے لالہ زار پِھرتے ہیں

واہ کیاجُود و کرم ہے شَہِ بَطْحا تیرا

ہم خاک ہیں اور خاک ہی مَاوا ہے ہمارا

یاالہٰی رحم فرما مصطفٰی کے واسطے