نگاہیں رہ میں بچھا دو کہ آپؐ آئے ہیں

نگاہیں رہ میں بچھا دو کہ آپؐ آئے ہیں

دلوں کو فرش بنا دو کہ آپؐ آئے ہیں


ضمیر ارضِ مقدس سے آرہی تھی صدا

صنم کدوں کو گرا دو کہ آپؐ آئے ہیں


طلوعِ مہر رسالت ہے، آج باطل کے

سبھی چراغ بجھا دو کہ آپؐ آئے ہیں


بُتانِ کعبہ ولادت کا سُن کے بول اُٹھے

سرِ نیاز جھکا دو کہ آپؐ آئے ہیں


خدا نے آمدِ محبوبؐ کی خوشی میں کہا

فرشتو عرش سجا دو کہ آپؐ آئے ہیں


ظہوریؔ قبر میں منکر نکیر یوں بولے

نبیؐ کی نعت سنا دو کہ آپؐ آئے ہیں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

عبدِ عاجز کو ہے شوقِ رقمِ نعتِ رسولؐ

تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے

غارِ حرا کی کالی چٹانیں

خلق کہ جان دے دشمن ہیٹھاں چادر آپ وچھاوے

ایک ذرّے کو بھی خورشید بناتے دیکھا

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے

جس سے ضیا طلب ہے ترا ماہتاب چرخ

حیات اسوۂ سرکار میں اگر ڈھل جائے

وہ سورج ہے سب میں ضیاء بانٹتا ہے

حاصل ہے جسے الفتِ سرکار کی دولت