نورِ حق جلوہ نما تھا مجھے معلوم نہ تھا

نورِ حق جلوہ نما تھا مجھے معلوم نہ تھا

شکلِ انساں میں چھپا تھا مجھے معلوم نہ تھا


بارہا جس نے کہا تھا اَنَا بَشَر اس نے

مَن رَّاٰنِیْ بھی کہا تھا مجھے معلوم نہ تھا


بکریاں جس نے چرائی تھیں حلیمہ تیری

عرش پر وہ ہی گیا تھا مجھے معلوم نہ تھا


جس نے اُمت کے لیے روکے گزاریں راتیں

وہ ہی محبوبِ خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا


چاند اِشارے سے پھٹا حکم سے سورج لوٹا

مظہرِ ذاتِ خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا


دیکھا جب قبر میں اس پردہ نشیں کو تو کھلا

دِلِ سالکؔ میں رہا تھا مجھے معلوم نہ تھا

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

دیارِ نور میں اک آستاں دکھائی دیا

دو جگ دا سلطان مدینے والا اے

ملے ‘ جو مجھ سے کوئی برہمی سے ملتا ہے

مَیں، اور مجھ کو اور کسی دِلربا سے عشق؟

مرحبا مرحبا صاحب معراج

عصمتِ حسنِ پیمبرؐ سے ضیا ڈھونڈیں گے

یہ خوشبو مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہوتی ہے

پاک نبی تے لکھ درُود پاک نبی تے لکھ درُود

دِل میرا یہ کہتا ہے محبوبِ خدا کہیئے

پیار نبیؐ دے پر لائے نیں شعراں نوں