یہ خوشبو مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہوتی ہے
مجھے تو یہ مدینے کی گلی محسوس ہوتی ہے
یقیناً یہ گزرگاہِ شہنشاہِ دو عالم ہے
فضا میں کس قدر پاکیزگی محسوس ہوتی ہے
میری بے نور آنکھوں نے چراغوں کی جگہ لے لی
مجھے اب وہ روشنی ہی روشنی محسوس ہوتی ہے
رُکی جاتی ہیں نبضیں اور قدم تھم تھم کے بڑھتے ہیں
مجھے اب قربتِ بابِ نبی ﷺ محسوس ہوتی ہے
اذان صبح دیتا ہے کوئی لحنِ بلالی میں
یکایک روح میں بالیدگی محسوس ہوتی ہے
ہوائیں گنگناتی ہیں ‘ فضائیں مسکراتی ہیں
میں کھویا جارہا ہوں ‘ بیخودی محسوس ہوتی ہے
جہاں میں اب کھڑا ہوں روضہ ء اقدس ہے یہ شاید
تڑپ سینے میں ‘ آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے
میں کچھ یوں دم بخود ہوں اس دیارِ رنگ و نکہت میں
کہ اپنی زندگی بھی اجنبی محسوس ہوتی ہے
جبیں میری عرق آلود ہے احساسِ عصیاں سے
بہت خوش ہوں مگر شرمندگی محسوس ہوتی ہے
یہ وہ ارضِ مقدس ہے جہاں کے ذرّے ذرّے میں
ابھی تک نکہت پائے نبی ﷺ محسوس ہوتی ہے
کہیں بدرالدجیٰ ﷺ کے نور سے فانوس روشن ہیں
کہیں نور الہدیٰ ﷺ کی آگہی محسوس ہوتی ہے
یہ کس شہر میں اقبؔال قسمت مجھ کو لے آئی
یہاں جو چیز ہے کتنی بڑی محسوس ہوتی ہے
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم