نورِ امکا ں کا خزانہ درِ والا ان کا

نورِ امکا ں کا خزانہ درِ والا ان کا

وسعتِ کون ومکاں میں ہے اجالا ان کا


دردِ انساں سے مہکتا ہوا شیریں لہجہ

کیسا اندازِ ہدایت تھا نرالہ ان کا


ہر زمانے کے لیے اسوہ و معیار بنا

خُلق اس درجہ ہوا ارفع و اعلا ان کا


ٹھہرا مشعل وہ بہاراں کی زمانے کے لیے

ریگِ صحرا میں کھلا جب گلِ لالہ ان کا


جابجا ان کا ادب حق نے سکھایا ہم کو

ذکر خود اس نے کیا خَلق میں بالا ان کا


جیسے دنیا میں ہے عزت مری اس نام کے ساتھ

کاش محشر میں بھی کام آئے حوالہ ان کا


رنجِ تنہائی جو بڑھ جائے حدوں سے تائب

دے تسلی مجھے خود ربّ تعالیٰ ان کا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

اُدھر دونوں عالم کے والی کا در ہو

ساہ آیا آیا ناں آیا اِس ساہ دا کچھ اعتبار نہیں

اپنے گھر میں ایک دن داخل

وقف نظمی کا قلم جب نعتِ سرور میں ہوا

معراج کی رات

مشکل میں ہیں نبیﷺ جی

نعتیہ ہائیکو

محمد حبیب خُدا مل گیا اے

لب پہ آقاؐ کے دعا بہرِ ستم گر دیکھ کر

قرض تیرے پیار دا آقاؐ اتاراں کس طرح