نور ونکہت کی گھٹا چاروں طرف چھائی ہے

نور ونکہت کی گھٹا چاروں طرف چھائی ہے

زلفِ واللیل ہواؤں میں جو لہرائی ہے


جس پہ فردوس بھی سو جان سے شیدائی ہے

باغِ طیبہ میں عجب لطف ہے رعنائی ہے


اتنی گہرائی کہاں تجھ میں ہے بحرؔ الکاہل

بحرِ عشقِ شہِ والامیں جو گہرائی ہے


خود کھنچا جاتا ہے دل میرا مدینے کی طرف

جب سے آنکھوں میں بسی صورتِ زیبائی ہے


خود بخود دل مرا سینے سے چلا سوئے نبی

سبز گنبد کی جو تصویر نظر آئی ہے


زخم گہرا ہے دوا دیجے طبیبوں کے طبیب

آپ کی ذات تو صد رشکِ مسیحائی ہے


توڑ رکھّی ہے کمر سنگِ حوادث نے شہا

لیجیے جلد خبر جان پہ بن آئی ہے


یادِ طیبہ تری نکہت پہ میں قرباں دل سے

تیری خوشبو سے مہکتی مری تنہائی ہے


اپنی تقدیر پہ نازاں نہ ہو کیوں وہ احمدؔ

ان کے کوچے میں جسے موت و قضا آئی ہے


دافعِ رنج و الم کیجیے للہ کرم

سر پہ احمد کے مصیبت کی گھٹا چھائی ہے

کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت

دیگر کلام

ہوئی ہے خِلقتِ انسان بندگی کے لئے

دیکھ اے دل! یہ کہیں مُژدہ کوئی لائی نہ ہو

اوہ آجاون میرے ویہڑے ایہو منگدا دُعا بیٹھا

وقتی کہ شوم محوِ ثنائے شہِ لولاک

اَب تو مَیں کچھ بھی نہیں اشکِ ندامت کے سوا

مُلّا کی قیل و قال غلط، گفتگو غلط

بہر دیدار مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائے

مرا واسطہ جو پڑے کبھی کسی تیرگی کسی رات سے

ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم

کرم اللہ کا ہم پر عنایت مصطفیٰ کی ہے