رفرفِ فکر جو شاہ کی چوکھٹ پر جاتا ہے

رفرفِ فکر جو شاہ کی چوکھٹ پر جاتا ہے

در پر دید کی پیاسی آنکھیں دھر جاتا ہے


موت کو سچی مات سے واقف کر جاتا ہے

آقا کی ناموس پہ جس کا سر جاتا ہے


گردِ نعالِ شاہِ امم کا تحفہ پا کر

کاہکشاں کا چہرہ خوب نکھر جاتا ہے


سخت کٹھن ہے دو دھاری تلوار پہ چلنا

قلم سے لرزا اور نہ دل سے ڈر جاتا ہے


روح کا پنچھی رہ جاتا ہے طیبہ میں

زائر خالی پنجرا لے کر گھر جاتا ہے


کاسہ لیسی کی نوبت آنے سے پہلے

طیبہ میں کشکولِ گدائی بھر جاتا ہے


کارِ ثنا کے لائق ہے اشفاق کہاں

لیکن پھر بھی حسبِ محبت کر جاتا ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

پرنور ہے زمانہ صبحِ شبِ وِلادت

غریباں فقیراں نوں گل لان والے

عرش سے آتی ہے صدا صلِّ علیٰ محمدٍ

راہواں دے وچ پھل برساؤ آقا میرے آرئے نے

وہ کیسا سماں ہوگا، کیسی وہ گھڑی ہوگی

قدرت نے میرے دل میں بھرے مصطفےٰؐ کے رنگ

میں کہ سگِ بلال ہوں

سرو گل زارِ ربِ جلیل آپ ہی ہیں

محبوبِ ربِّ اکرم! لاکھوں سلام تم پر

کئے جا صبا تو مدینے کی باتیں