رفرفِ فکر نے فرشِ غزل سے

رفرفِ فکر نے فرشِ غزل سے عرشِ نعت پہ ہجرت کی

مالکِ حرف نے ہر مشکل میں حرف و سخن کی نصرت کی


نظریں تھیں ہر اک منظر پر محوِ طواف مدینے میں

شہرِ معطر کے ہر موڑ پہ اک دنیا تھی حیرت کی


گرچہ میں دشتِ ملتان کی بے قیمت سی مٹی ہوں

لیکن میری مدحِ نبی نے بے اندازہ شہرت کی


فرطِ عقیدت میں پلکوں سے سجدے بہنے لگتے ہیں

خیمۂ دل میں ہوتی ہے جب مشک فشانی عترت کی


جس آقا نے اپنے پیٹ پہ دو دو پتھر باندھے تھے

اس کے غلاموں نے دنیا میں بے حد عیش و عشرت کی


میرے ہی احباب کا چرچا ہوگا ہر اس محفل میں

نقدِ نعت کی جس محفل میں بات چلے گی ندرت کی


نعت کی صدقے میں دیدارِ آقا کا متمنی ہوں

جود و کرم ہو خواہش دل میں کوئی نہیں ہے اجرت کی


کرتے ہیں پیغامِ محبت عام زمانے میں لیکن

ختمِ نبوت کے منکر سے ہم نے ٹوٹ کے نفرت کی


لطفِ حضوری نے اپنی آغوش میں لے کر شاد کیا

جب اشفاق نے نم آنکھوں سے ذکرِ نبی کی کثرت کی

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

کوئی تیں جیہا نظریں آوے تے ویکھاں

طوفان رنج و غم کے بجھاتے رہے چراغ

صد شکر کہ سرکار کا میں مدح سرا ہوں

رُوح کی تسکیں ہے ذِکر ِ احمدؐ ِ مختار میں

اے کاش مہ گنبد خضری نظر آئے

وہ حسنِ مجسّم نورِ خدا نظروں میں سمائے جاتے ہیں

اے میریا سوہنیا محبوبا میری تقدیر سنواری جا

یکتا یگانہ دلنشیں محبوبِؐ ربّ العالمیں

کرتے ہیں عرض حال زبانِ قلم سے ہم

اہلِ طائف ! کیا کِیا ہے اور تُم کو کیا ملا