رکھتے نہیں ہیں جو درِ خیر البشرؐ پہ ہاتھ

رکھتے نہیں ہیں جو درِ خیر البشرؐ پہ ہاتھ

روئیں گے روزِ حشر وہی رکھ کے سَر پہ ہاتھ


اِس مصلحت سے نُورِ ازل کو بشر کہا

اللہ کا ہے عظمتِ نوعِ بشر پہ ہاتھ


جز اُن کے گَردِ راہ بنی کس کی کہکشاں

پہنچے ہیں کس کے دامنِ شمس و قمر پہ ہاتھ


سِدرہ پہ رُک گئے شبِ معراج جبرئیلؑ

پرواز اُن کی رکھ نہ سکی بال و پَر پہ ہاتھ


دیکھا جو اُن کے جلوۂ رُوئے صبیح کو

بادِ صبا بڑھاتی ہے شمعِ سحر پہ ہاتھ


ہوتی نہ دلفریب یہ صورت جہان کی

ہوتے حُضورؐ کے نہ اگر بحر و بر پہ ہاتھ


بے ساختہ لبوں پہ جو نام اُن کا آگیا

رکّھا حُضورؐ نے وہیں قلب و جگر پہ ہاتھ


منزل نے کارواں کو صدا دی کہ حوصلہ

تھک کر مسافروں نے جو رکّھے کمر پہ ہاتھ


مَیں کیا نصیرؔ اور مِرے شعر کیا، مگر

اللہ کی عطا سے ہے دوشِ ہُنر پہ ہاتھ

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

بے کس پہ کرم کیجئے، سرکار مدینہ​

جیسے ہیں سرکار کوئی اور نہیں

اُویسیوں میں بیٹھ جا

محمد دا رتبہ خدا کولوں پُچھو

ترے ذکر و فکر میں دن ڈھلا تری گفتگو میں سحر ہُوئی

آج دل نور ہے میری جاں نور ہے

مہک مدینے کی لائے بہار اب کے برس

یا نبیؐ تیرا کرم درکار ہے

وہی مومن جسے تو سب سے فزوں ہے یوں ہے

مرے آقا میری بگڑی بنا دے