روح میں الفتِ سرکار لیے بیٹھے ہیں

روح میں الفتِ سرکار لیے بیٹھے ہیں

مطمئن ہم ہیں کہ سو جان جیے بیٹھے ہیں


ہے یقیں ان سے جو مانگیں گے وہ دے ہی دیں گے

درِ مختار پہ ہم دھرنا دیے بیٹھے ہیں


قبر میں ان کا جو دیدار ہوا وقتِ سوال

حشر تک ہم وہی ایک جام پیے بیٹھے ہیں


چھوڑ کر طیبہ کہیں اور نہیں جائیں گے

ہم غلامانِ حضور عہد کیے بیٹھے ہیں


نظمی ہے نعت کے میداں میں رضا کا مظہر

اور رضا سنّتِ حسّان لیے بیٹھے ہیں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

شمع دیں کی کیسے ہو سکتی ہے مدھم روشنی

ہر ادا آپؐ کی دین ہے

کروڑاں آرزو واں غم نے لکھاں یا رسول اللہ

لج پال اوہ والی امت دا ، امت دے درد ونڈاؤندا اے

رُخ پہ رحمت کا جھومر سجائے کملی والے کی محفل سجی ہے

گدا سارا عالم محمد دے در دا

مدینہ نور و نکہت کا خزانہ

چودہ سو سال پہلے جو اٹھی نظر

جس کشتی کے ہیں احمدِ مختار محافظ

ہر شے میں ہے نورِ رُخِ تابانِ محمد