روح مین کیفِ ثنا پاتا ہوں

روح مین کیفِ ثنا پاتا ہوں

لطفِ شاہِؐ دوسرا پاتا ہوں


ہادی کون ومکاں آتے ہیں

وجد میں ارض و سما پاتا ہوں


والئ کشورِ جاں آتے ہیں

سرِ تسلیم جھکا پاتا ہوں


محرمِ لفظ و بیاں آتے ہیں

درِ اسرا رکھلا پاتا ہوں


ہمدمِ خستہ دلاں آتے ہیں

خود کو ہر غم سے رہا پاتا ہوں


اُن کے اکرام ہیں بے حد وحساب

دہر ممنونِ عطاپاتاہوں


مرضِ جسم ہو یا روح کا روگ

ذکر سے اُن کے شفا پاتا ہوں


خوش عمل گو نہیں خوش بخت ہوں میں

اُن کے دامن کی ہوَا پاتا ہوں


یادِ سرکارِؐ دو عالم کے طفیل

تلخیوں میں بھی مزا پاتا ہوں


تیرہ و تار گزر گاہوں میں

اُن کی ہمّت سے ضیا پاتا ہوں


ان کے احکام بجالانے میں

سارے عالم کا بھلا پاتا ہوں


ہو گے گم ان کی وِلا میں تائبؔ

چشمہء آبِ بقا پاتا ہوں

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

شاہِ کونین جلوہ نما ہوگیا

رونقِ دو جہاں آپ ہیں

چار سو بکھری ہوئی ہے نور و نکہت کی چمک

ہے تلخئ حالات سیہ رات بہت ہے

جمالِ گنبد ِ خضریٰ عجیب ہوتا ہے

غمزدوں کے لیے رحمتِ مصطفیٰﷺ

محمدؐ کی نعتیں سناتے گزاری

مٹھے مٹھے سوہنے تیرے بول کملی والیا

قطرے کے سوالی کو عطا کر دو ہو دریا

نور بہتا ہو جہا ں تشنہ لبی کیسے ہو