رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

رُواں رُواں مرا روتا ہے چشمِ تر کی طرح

کہ اب بھی دُور ہوں قدموں سے‘ پیشتر کی طرح


مرے حضُور میں نادم ہوں اپنی غفلت پر

خبر کے بعد بھی گزری ہے بے خبر کی طرح


ابھی حَرم میں ہوں گویا ابھی مدینے میں

گزر رہے ہیں مرے روز و شب سفر کی طرح


پھر اُس دیارِ کرامت اثر میں لے کے چلو

جہاں کی خاک پہ جھکتا ہے دِل بھی سر کی طرح


نظر سفر میں تھی اور رُخ تھا سُوئے کوئے نبیؐ

جمالِ گنبدِ خَضرا تھا ہم سفر کی طرح


یہ کِس کے صدقے میں ہر سمت روشنی پھیلی

حرم کے صحن مدینے کے بام و در کی طرح


ہمہ صفات ہے وُہ ذاتِ اقدس و اعلیٰ

یہ مت کہو کہ ہیں خیبر البشرؐ بشر کی طرح

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

مرا واسطہ جو پڑے کبھی کسی تیرگی کسی رات سے

میرے دل میں ہے یادِ محمد ﷺ

کیسے عمر کے کفر کا سر ہو گیا قلم

پابند ہوں میں شافعِ محشر کی رضا کا

میرے مولا میرے سروَر رحمۃٌ لِّلْعالمیں

سر کو جھکائے ہے فلک ان کے سلام کے لیے

اِذنِ طیبہ مُجھے سرکارِمدینہ دے دو

کیا پوچھتے ہو ہم سے، مدینے میں کیا مِلا

ہر لمحہ زندگی کا یہی اک اصول ہو

کبھی وہ گُنبدِ خضرٰی مدینے جا کے دیکھیں گے