سج گئی بزمِ مسرت آمدِ سرکار سے

سج گئی بزمِ مسرت آمدِ سرکار سے

وجد میں ہے ساری خلقت آمدِ سرکار سے


ہوگئی ہے جب سے نسبت آمدِ سرکار سے

بارہویں کی ہے فضیلت آمدِ سرکار سے


بے قراروں کو ہے راحت آمدِ سرکار سے

ہے مصیبت میں مصیبت آمدِ سرکار سے


بھاگا بھاگا پھر رہا ہے آج شیطانِ لعیں

چھائی ہے کچھ ایسی ہیبت آمدِ سرکار سے


آمنہ کے گھر ہی کیا سارے جہاں میں دیکھیے

چھا گیا ہے ابرِ رحمت آمدِ سرکار سے


اولیں سرکار سے اقراء کہا قرآن نے

پھر ہوئی روشن تلاوت آمدِ سرکار سے


بت پرستی کے اندھیروں نے رکھا تھا گھیر کے

روشنی میں آئی وحدت آمدِ سرکار سے


مار دینا بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی شفیقؔ

مٹ گیا نقشِ جہالت آمدِ سرکار سے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

مشغلہ ہو یہی بس یہی رات بھر

جو عشقِ نبی میں فنا ہو گیا ہے

لے کے مدحت کے ترانے ہم مدینے جائیں گے

کیا عزت و شہرت ہےکیاعیش و مسرت ہے

فلک کے چاند سورج ہوں کہ تارے یا رسول اللہ

سج گئی بزمِ مسرت آمدِ سرکار سے

آسماں سے ہو رہی ہیں بارشیں انوار کی

مِرے سرکار کے جیسا رخِ انور کسی کا ہے ؟

احمدِ مجتبیٰ خاتم الانبیاء

نبی کا کوئی ہمسر ہے نہ ان کا ہے کوئی ثانی

حکم سرکار کی جانب سے اگر آئے گا