ثنائے احمدِ مُرسل میں جو سخن لکھوں

ثنائے احمدِ مُرسل میں جو سخن لکھوں

اسی کو ندرتِ فکر و کمالِ فن لکھوں


وہ لفظ جس کا ہو مفہوم شانِ ختم رُسل

میں اس کو چشمۂ سیماب کی کرن لکھوں


وہ جستجو جو رہے فکرِ نعت میں ہر دم

میں اس کو رفرفِ افلاک فکر و فن لکھوں


وہ روح میں جو مہکتا ہے رات دن اِک نام

اسے گلاب لکھوں یا کہ شب دلہن لکھوں


اُنھیں کے نام کو لکھوں حیاتِ نو کا پیام

حیاتِ نو کی جو تعریف میں سخن لکھوں


فضا میں رنگ بکھر جائیں جس تصوّر سے

میں اس خیال کو فطرت کا بانکپن لکھوں


صبا جو کاکلِ مُشکیں کا لَمس پا کے چلے

میں اُس صبا کو رمِ آہوئے ختن لکھوں


وہ گردِ کوچۂ بطحا ، رموز کا جامہ

اسے شہیدِ محبت کا میں کفن لکھوں


ہزار جانِ گرامی نثارِ لذّتِ غم

جو اُن کی یاد کی دل میں کوئی چبھن لکھوں


وہ نور جس کا اُجالا محیطِ کون و مکاں

میں کیوں نہ اس کو محمد کا پیرہن لکھوں


وہ ایک نام جو تشبیہ کا نہیں محتاج

میں اس کی طرح میں کیا؟ رَبِّ ذو المنن لکھوں


ہے جُوئے شِیر اگر نعتِ مصطفیٰ لکھنا

تو پھر ادیبؔ تجھے کیوں نہ کوہ کن لکھوں

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

عشق کی منزل عشق کا رہبر

میرے افکار ہیں پروردۂ دربارِ رسول

اِک نعت لکھی ہے ہم نے بھی

ہادئ و رہبر و امام تم پہ درود اور سلام

لبیک اللّٰھم لبیک

کیا شور ذکر و فکر دعا پنجگانہ کیا

بشر کیا لکھے گا مقامِ محمد

اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی

جلالِ آیتِ قرآں کو جو سہار سکے

یا محمد نُورِ مُجسم یا حبیبی یا مولائی