سرِ محفل کرم اتنا مرے سرکار ہو جائے

سرِ محفل کرم اتنا مرے سرکار ہو جائے

نگاہیں منتظر رہ جائیں اور دیدار ہو جائے


تصور میں تری ہر شے پہ یوں نظریں جماتا ہوں

نہ جانے کون سی شئے میں ترا دیدار ہو جائے


غلامِ مصطفیٰ بن کر میں بکِ جاوؔں مدینے میں

محمد نام پہ سودا سرِ بازار ہو جائے


سنبھل کر پاوؔں رکھنا حاجیو شہرِ مدینہ میں

کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بیکار ہو جائے


فنا اتنا تو ہو جاوؔں میں تیری ذات عالی میں

جو مجھ کو دیکھ لے اس کو ترا دیدار ہو جائے


تجھے منظور ہے پردہ مجھے پاسِ ادب ورنہ

میں جب چاہوں جہاں چاہوں ترا دیدار ہو جائے


حبیب اس حال سے ابتر بھی حال زار ہو جائے

جو ہونا ہو سو ہو جائے مگر دیدار ہو جائے

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

سبز گنبد کے سائے میں بیٹھا رہوں

حبیب کبریا کے دہر میں تشریف لانے پر

میری جانب بھی ہو اک نگاہ کرم، اے شفیع الواری، خاتم الانبیاء

پھر آنے لگیں شہر محبت کی ہوائیں

قرآں کی زباں خود ہے ثنا خواں محمدﷺ

سلام اس پر خدا کے بعد جس کی شان یکتا ہے

میرے سید و سرور اے حبیب ربانی

محمد مصطفیٰ نے کس قدر اعجاز فرمایا

لج پال اوہ والی امت دا ، امت دے درد ونڈاؤندا اے

بن کملی کملی والے دی پھراں طیبہ دے بازاراں وچ