سبز گنبد کے سائے میں بیٹھا رہوں

سبز گنبد کے سائے میں بیٹھا رہوں

مجھ کو پھر عمر بھر اور کیا چاہئے


اب کسی کو یہاں فکر منزل نہیں

آپ ہیں راہبر اور کیا چاہئے


نعمتیں دینے والے سے مانگوں انہیں

مجھ سے پو چھے اگر اور کیا چاہئے


سامنے آستانے کی ہیں جالیاں

اے مری چشم تر اور کیا چاہیے


پھر یقینا سہیل ان کا ہوگا گرم

ہے انہیں بھی خبر اور کیا چاہئے

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

اَحمد کی رضا خالق عالم کی رضا ہے

بارگاہِ تخیل میں

کاش! دشتِ طیبہ میں ،میں بھٹک کے مرجاتا

کچھ اس ادا سے تصوّر میں آپ آتے ہیں

جو روشنی حق سے پھوٹ کر جسم بن گئی ہے، وہی نبی ہے

گُذرا وہ جِدھر سے ہوئی وہ راہ گذر نُور

(بحوالہ معراج)جانبِ عرش ہے حضرتؐ کا سفر آج کی رات

اوس دی طفیل مینوں رنگ سوہنیا

منتخب اشعار

ذرّے جھڑ کر تری پیزاروں کے