میرے سید و سرور اے حبیب ربانی

میرے سید و سرور اے حبیب ربانی

ہر طرح سے تو اعلی ہر طرح سے لاثانی


میں کہ ہوں ترا بندہ مجھ کو بھی عطا کر دے

اپنی وہ محبت جو حشر تک ہو لافانی


تیرے ہجر میں رونا بھی تو اب نہیں بس میں

خشک ہو چکا آقا میری آنکھ کا پانی


چاہے تو اگر آقا یہ فضا بدل جائے

اس قدر نہیں دیکھی عزتوں کی ارزانی


کائنات پیدا کی رب نے تیری ہی خاطر

ہر کہیں ، جدھر دیکھوں ، تیری جلوہ سامانی


چاہتا تو ہوں سب کچھ تجھ پر میں کروں قرباں

میرے پاس ہی کیا ہے دوں میں جس کی قربانی


سخت کشمکش میں ہوں، صرف آس ہے تیری

ایک تو ہی اپنا ہے ، خلق ساری بیگانی

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

’’حضور آپ کی سیرت کو جب امام کیا‘‘

اس سے ظاہر ہے مقام و مرتبہ سرکار کا

حمد و نعتِ شہِ زمن کے گلاب

ایتھے اج کملی والے دا ذکر اذکار ہووے گا

تا حدِ نظر مہرِ نبوت کا اجالا

وقف جاناں ہے زندگی اپنی

تجلیات کا سہرا سجا کے آئے ہیں

دو جہاں میں سلامتی آئی

نگاہِ لُطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں

درِ نبیﷺ پر پڑا رہوں گا