سرِ نظارت رخِ مدینہ کہاں سے لاؤں

سرِ نظارت رخِ مدینہ کہاں سے لاؤں

عجم کی مٹی ہوں طورِ سینا کہاں سے لاؤں


حضورِ اکرم سُنیں تو ہولے سے مسکرا دیں

میں نعت کہنے کا وہ قرینہ کہاں سے لاؤں


مہک تو سکتے ہیں اب بھی دونوں جہان لیکن

میں شاہِ ابرار کا پسینہ کہاں سے لاؤں


میں دیکھ پاؤُں شہِ مکرم کے نرم تلوے

میں وہ مقدر وہ چشمِ بینا کہاں سے لاؤں


جسے مدینے کے کنکروں کی مثال سمجھوں

وہ لعلِ نایاب وہ نگینہ کہاں سے لاؤں


ربیعِ اول مسرتیں بانٹتا ہے ہر سو

میں ہر مہینے وہی مہینہ کہاں سے لاؤں


جو نعلِ پائے رسول تک دے رسائی مجھ کو

میں بے ہنر وہ رفیع زینہ کہاں سے لاؤں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

ہونٹ جب اسمِ محمد کے گہر چومتے ہیں

طوفان رنج و غم کے بجھاتے رہے چراغ

ساریاں ستاریاں چ نُور آپ دا

رب نے جس کی مانی ہے تم اس نبیؐ کو مان لو

ابھی قدموں کو چُوما ہے ابھی چہرہ نہیں دیکھا

جو ترے نام پہ قربان ہوا کرتے ہیں

خورشید جِس کے نُور کا ایک اقتباس ہَے

اللہ نور، نور کا پیکر حضورؐ ہیں

عاصیوں کو دَر تمہارا مِل گیا

اُس ذات پر صفات کی حُجتّ ہوئی تمام