سر تا بقدم معجزہ وہ قامتِ زیبا
سیرت جو ہے بے مثل تو صورت بھی ہے یکتا
الفاظ و معانی ہیں بہم لازم و ملزوم
صورت کا بھی دلدادہ ہوں سیرت کا بھی شیدا
تقدیس و شرافت کا ہے آئینہ تری ذات
احسان و صداقت کا نشاں تیرا سراپا
خوشبو کی طرح پھیل گیا ارض و سما میں
اے ختمِ رُسلؐ حرف جو لب سے ترے نکلا
اللہ کی پہچان ترا پیکرِ اطہر
ہم تیرے شناسا ہیں تو ہے اس کا شناسا
ہر دور کے لب پر تری عظمت کے ترانے
ہر دور نے مانگا تری طلعت سے اجالا
ہے آج بھی قائم تری باتوں کی حرارت
ہے آج بھی دنیا ترے کردار کی شیدا
بس میں ہو تو اس شہر کو انکھوں میں بسالوں
جس شہر میں ہے بارگہِ سیدِ بطحا
پھر روح مری تشنہء دیدار ہے آقا
اک بار اسی رنگ اسی روپ میں آجا
جلتا ہے بدن دیدہ و دل خون ہوئے ہیں
اے ابرِ کرم اب تو ادھر بھی کوئی چھینٹا
ہیں مشرق و مغرب بھی تجسس میں سکوں کے
درکار ہے سب کو ترے دامن کا سہارا
تپتے ہوئے ماحول سے گھبرا کے یہ دنیا
اب ڈھونڈ رہی ہے تری دیوار کا سایہ
بخشا ہے تو اب اس کی نگہداشت بھی فرما
محبوب ہے ہر ذرہ مجھے اپنے وطن کا
اعظم مجھے فرصت ہی نہیں ذکرِ نبی سے
ہوتا رہے برہم غمِ دنیا غمِ عقبیٰ
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی