سرور انبیاء مظہر کبریا یا نبی مصطفی تو وری الوری

سرور انبیاء مظہر کبریا یا نبی مصطفی تو وری الوری

مطلع کن مکاں مقطعه مرسلاں شاہ ارض و سما تو وری الوری


میری قسمت کہ تیری گدائی ملی تو ملا تو خدا کی خدائی ملی

میں ہوں تیرا گدا تو ہے داتا مرا شان والے شہا تو وری الوری


میرے جرم و خطا سے ہیں دامن بھرے تیرے ماتھے شفاعت کے سہرے بجے

میں خطا ہی خطا تو عطا ہی عطا یا حبیب خدا تو وری الوری


رک گئے کہہ کے سدرہ پر روح الامیں یا نبی آگے جانے کی ہمت نہیں

تم ہو محبوب رب میں تمہارے سبب میری اوقات کیا تو وری الوری


فرش والوں کا کعبہ ترا سنگ در عرش والے جھکیں تیری دہلیز پر

سب سے اعلیٰ ہے تو سب سے بالا ہے تو کون تجھ سا ہوا تو وری الوری


اپنی الفت سے بھر دے تو سینہ میرا اللہ رکھے سلامت مدینہ تیرا

صدقہ حسنین کا بھر دو کاسہ میرا میرے حاجت روا تو وری الوری


تیری چوکھٹ سے جائے نیازی کہاں نگاہ کرم والی دو جہاں

سیدی مرشدی یا نبی یا نبیؐ میں کجا تو کجا تو وری الوری

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

اَلَا یٰایُّھَا السَّاقِیْ اَدِرْ کَاْسًاوَّ نَاوِلْھَا

کی شان اوہدی دسیئے جو شان خدا ہووے

چشمِ کرم حضور کی فیضانِ نعت ہے

جو مرے نبی کا کرم ہوا وہ میں لاؤں کیسے حساب میں

تذکارِ نبیؐ ہے مرے گفتار کی زینت

خزاں دا گزر نہیں مدینے دے اندر

چن عرب دا چلیا عرشاں نوں راہواں وچ وچھ گئے تارے نیں

اپنے عملّاں اُتّے سنگاں

ٹھہرو ٹھہرو رہ جاؤ یہیں کیوں طیبہ نگر سے دور چلے

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس