سارے عالم کی تمنا شہِ مکّی مدنی

سارے عالم کی تمنا شہِ مکّی مدنی

میرے بھی دل کا سہارا شہِ مکّی مدنی


ہے یہی ایک تمنّا شہِ مکّی مدنی

ہم نے دیکھا نہیں بطحا شہِ مکّی مدنی


ہر گھڑی رہتا ہوں میں مضطر دیدِ طیبہ

لُٹ چکی ہے مری دُنیا شہِ مکّی مدنی


بے نوا ہوں میں خدارا مرا کاسہ بھر دے

شاہِ عالم شہِ والا شہِ مکّی مدنی


یہ مری زیست مری جاں مری عزت مرا علم

ہے ترے نام کا صدقہ شہِ مکّی مدنی


یہ مہ و انجم و خورشید بھلا کیا شے ہیں

آپ ہی سے ہے اُجالا شہِ مکی مدنی


ابھی کردے گا سفینہ مرا ساحل کے قریں

ایک ادنیٰ سا اشارہ شہِ مکی مدنی


رات دن رکھتی ہے بہزؔاد کو مہجور و تپاں

یہ تمنائے مدینہ شہِ مکّی مدنی

شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی

کتاب کا نام :- نعت حضور

دیگر کلام

رکھتا ہے جو بھی دل میں عقیدت حضور کی

کر اِہتمام بھی ایمَاں کی روشنی کے لیے

میں کچھ نہ سہی میرا مقدر تو بڑا ہے

ہوئیں آرائشیں جو اِس قدر سارے زمانے کی

کملی والے کے جو بھی گدا ہو گئے

تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے

رفعتِ مصطفائی پر عرش کی عقل دنگ ہے

اے حضورِ پاک مجھ کو نیک نامی دیجئے

عجب دِل ُکشا ہیں مدینے کی گلیاں

کوئی لمحہ بھی تیرے ذکر سے خالی نہ ہوا