شاہِ دیں وجہِ دوسرا تم ہو

شاہِ دیں وجہِ دوسرا تم ہو

ہم غریبوں کا آسرا تم ہو


میری کشتی کو خوفِ طوفاں کیا

میری کشتی کے نا خُدا تم ہو


تم حبیبِ خُدائے برتر ہو

تم مُحمَّد ہو مصطفؐےٰ تم ہو


ذرّے ذرّے میں ہو تمہارا نور

مظہرِ ذاتِ کبریا تم ہو


حق ہے حاصل ہوئی تمہیں معراج

حاصلِ آیہء دنیٰ تم ہو


کیوں نہ دامن بھرا نظر آئے

ہم فقیروں کا مدُعا تم ہو


تم سے خالی نہیں ہے کوئی نفس

دلِ بہزؔاد کی صدا تم ہو

شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی

کتاب کا نام :- نعت حضور

دیگر کلام

ہُوا جو بھی تیری نظر کا نشان

ان کی رفعت کا شاہد ہے عرشِ علا

حُسنِ رسول پاک کی تنویر دیکھئے

ہوں اگر ہشیار تو ہشیارِ ختم المرسلیں ؐ

محمدؐ کا حُسن و جمال اللہ اللہ

محبوبِ ربِّ اکرم! لاکھوں سلام تم پر

مدح سرا قرآن ہے جس کا تم بھی اسی کی بات کرو

کیسے رکھتا میں آنکھوں کا نم تھام کر

ساری دنیا کا وہ پیارا ہو گیا

اہلِ جہاں کو درد کا چارا نہیں نصیب