ہُوا جو بھی تیری نظر کا نشان

ہُوا جو بھی تیری نظر کا نشان

اسی کی خدائی اسی کا زمانہ


ترے ظرفَ عالی نے ہی لاج رکھ لی

نہ تھا میرا کوئی جہاں میں ٹھکانہ


عبادت کے قصے ریاضت کی باتیں

بجز پیرِ کامل فسانہ فسانہ


مقدر ہے ان کا سدا ہاتھ ملنا

ٹھکانے پہ آکے جو ہوں بے ٹھکانہ


عقیدت کا دامن نہ ہاتھوں سے چھُوٹے

یہی ہے محبت کا پہلا ترانہ


نگاہِ کرم ہے ظہوریؔ وگرنہ

کہاں میں کہاں یار کا آستانہ

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

جمال ہستی دا حسن سارا مرے نبی دے جمال وچ اے

آج کی شب بڑی سہانی ہے

پیار نبیؐ دے پر لائے نیں شعراں نوں

نور نوری کا ہمیں نوری بناتا جائے گا

ہم رسولِ مَدَنی کو نہ خدا جانتے ہیں

لم‌ یات نظیرک فی نظرٍ مثل تو نہ شد پیدا جانا

سر پہ میرے گرچہ عصیاں کا بڑا انبار ہے

میرے شام و سحر مدینے میں

ربِ کعبہ نے کر دی عطا روشنی

دریائے ہجر میں ہے سفینہ تِرے بغیر