شہا ! مُجھ سے نکمّے کو شعور و آگہی دے دیں

شہا ! مُجھ سے نکمّے کو شعور و آگہی دے دیں

اندھیروں سے نکلنا ہے،مُجھے کُچھ روشنی دے دیں


جبیں واقف نہیں میری رہی سجدوں کی لذّت سے

مرے آقا ! خُدارا اب شعورِ بندگی دے دیں


کوئی تو خُلقِ عالی کی جھلک ہم میں نظر آئے

سو لہجے کو حلاوت دیں، زباں کو چاشنی دے دیں


درود اپنی زباں پر بس ، رہے ہر دم مرے آقا

ہمارے برگِ ایماں کو، اِسی سے تازگی دے دیں


کروں بس خاکرُوبی میں ، آپ کے در پر رہوں ہر دم

کرم کردیں شہا ! مُجھ پر،مُجھے یہ نوکری دے دیں


بجا لائیں گے ہم خدمت،غُلاموں کی دل و جاں سے

اگر اپنے غُلاموں کی ہمیں وہ چاکری دے دیں


گُزاروں زندگانی آپ کی طاعت میں اے آقا

رہے قائم جو عُقبٰی سے ،وہ ربطِ زندگی دے دیں


جلیل اپنے لئے اِس سے بڑا اعزاز کیا ہوگا

کہ وہ مُجھ سے نکمّے کو بھی اِذنِ حاضری دے دیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

کب تک رہوں مرے خدا کوئے نبی سے دور دور

ساہ مُکدے مکدے مُک گئے نے جند مکدی مُکدی مک گئی اے

گھر سخیاں دے کال نئیں کوئی

معیارِ اہلِ دین ہےاُسوہ حضور ﷺکا

میں نعت لکھ دوں کریم آقا ردیف کر کے

آمد ہے نبی کی مکے میں ہر سمت ملک کا ہے جمگھٹ

آؤ مل کر سارے عالم کی یوں آرائش کریں

جسے تمنا ہے باغِ جنت کے خوش نظاروں سے ہو کے آئے

پڑھتا ہوں جس طرح میں دیارِ نبی کا خط

نورِ امکا ں کا خزانہ درِ والا ان کا