سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو

سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو

مری منزل ہی آقا کا نگر ہو


وہ جن رستوں سے ہوں سرکار گزرے

انہی رستوں سے میرا بھی گزر ہو


ہوں میرے سامنے روضے کے جلوے

ہر اک لمحہ زیارت میں بسر ہو


دیوانہ وار میں گلیوں میں گھوموں

نہ دنیا کی نہ اپنی کچھ خبر ہو


میں چوموں خاک اُن راہوں کی ہر دم

یہی بس کام اک شام و سحر ہو


تمنا ہے یہیں دم میرا نکلے

مری آہوں میں اتنا تو اثر ہو


ہیں ذرّے بھی درخشاں جس زمیں کے

اسی دھرتی پہ میرا مستقر ہو


مقدر رنگ لائے ناز کا گر

جبیں میری ، نبی کا سنگِ در ہو

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ہُوا جو اہلِ ایماں پر وہی احسان باقی ہے

یانبی مجھ کو مدینے میں بُلانا باربار

کرم آقائے ہر عالم کا ہم پر کیوں نہیں ہوگا

باعثِ کن فکاں السلام علیک

جب کیا میں نے قصدِ نعت حضورؐ

چلو جا کے غارِ حِرا دیکھ آئیں

مل گئی بھیک آپؐ کے در کی

سرد ہوا نفرت کا جہنم کِھلے پیار کے پھول

زندگی کا مسئلہ ہے واپسی

تسکینِ مساکیں ہے تِری شانِ کریمی