زندگی کا مسئلہ ہے واپسی

زندگی کا مسئلہ ہے واپسی

جاں کَنی کا مرحلہ ہے واپسی


در نبیؐ کا چھوڑنا ممکن نہیں

کربلا کا سانحہ ہے واپسی


ساتھ اپنے کیوں نہ لائی تُو قضا

اک یہی تجھ سے گلہ ہے ، واپسی!


نے زمیں نے آسماں پر میں رہا

چار سو میرے خلا ہے واپسی


جس کو کہتے ہیں خطِ لامنتہا

ایسا ہی اک سلسلہ ہے واپسی


دور مجھ کو ان کے در سے کر دیا

کیا بھلا تجھ کو ملا ہے واپسی!


کوئی طاہرؔ مجھ سے پوچھے تو کہوں

اک قیامت اک بلا ہے واپسی

کتاب کا نام :- ریاضِ نعت

دیگر کلام

احمدِ مجتبیٰ سے مطلب ہے

دِل کے ورق ورق پہ ترا نام لکھ دیا

تجلیات کا گلزار مسجدِ نبوی

کملی والے دا سراپا نُور اے

دین کا مجرم تھا وہ

ہوئی ظلم کی انتہا کملی والے

دو عالم میں جو نور پھیلا ہُوا ہے

کبھی بادل کے رنگوں میں

وہ دن آئیں کبھی ہم بھی بنیں مہماں مدینے میں

جو بھی منگتے شہ کونین کے در جاتے ہیں