سلگتے صحرا پہ خوش نصیبی

سلگتے صحرا پہ خوش نصیبی کے کیسے کیسے سحاب اُترے

خزاں زدہ زرد موسموں کی ہتھیلیوں پر گلاب اُترے


جہاں جہاں پر مِرے نبیؐ نے تجلیوں کے نقوش چھوڑے

وہاں وہاں پر خدا کے جلووں کے عکس، مثلِ حجاب اُترے


خیال و فکر و نظر کی ساری بشارتیں ہوگئیں مکمل

کہ زندگی کے اُصول سارے برنگ اُمُّ الکتاب اُترے


خدانے میرے نبیؐ کو بخشی جہاں میں جب آخری رسالت

تو کیسے کوئی رسول آئے تو کیسے کوئی کتاب اُترے؟


یہ میرا عہد خراب و خستہ بھی اُنکی رحمت کا منتظر ہے

کہ ذرّے ذرّے پہ جن کی رحمت کے سینکڑوں آفتاب اُترے


مِرے نبیؐ کی قیادتوں کے چراغ روشن ہوئے تو فیضیؔـ

نگر نگر روشنی سی پھیلی نگر نگر انقلاب اُترے

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

دیگر کلام

سرکار پڑی جب سے نظر آپ کے در پر

غم ہے افتاد پرانی میری

سوما سعادتاں دا اے رحمت حُضورؐ دی

ونڈ ونڈ فیض تے خزانے آپ دے

سیرتِ نور سے ملا سب کو شعورِ زندگی

ہے دونوں جلوہ گاہوں میں جلوہ حضور ﷺ کا

پلکاں دے اوہلے چمکے تارے حضوریاں دے

کیسا انسان یہ پیدا ہوا انسانوں میں

ٹھہرو ٹھہرو رہ جاؤ یہیں کیوں طیبہ نگر سے دور چلے

یا محمد میرے مولا آپ ہیں