تِری ذات سب کے ہے سامنے تُمہیں جانتا کوئی اور ہے

تِری ذات سب کے ہے سامنے تُمہیں جانتا کوئی اور ہے

تُو ہے نور یا کہ تُو ہے بشر یہ پچھانتا کوئی اور ہے


تِری بات سے یہ خبر تِری گُفتگو سے پتہ چلا

زبان ہے کسی اور کی یہ تو بولتا کوئی اور ہے


کلی پھُول کی خُوشبو سے ہم ہوئے آشنا اس راز سے

کہ نکھار ہے کسی اور کا یہ تو مہکتا کوئی اور ہے


میں نے دیکھا چاند کو رات کو

یہ تو نور ہے کسی اور کا یہ چمک رہا کوئی اور ہے


سرِ طُور حاکؔم دید پر کوئی کہہ رہا تھا کلیم سے

یہ نصیب ہے کسی اور کا اِسے مانگتا کوئی اور ہے

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

حالتِ زار سے واقف ہے خطا جانتی ہے

اپنے اللہ کا سب سے بڑا اِحساں بن کر

عطا ہوئی ہے ہمیں اس لئے پناہِ رسول ﷺ

حضورِ عالی کی مدحت کا لطف لیتا ہوں

سلگتے صحرا پہ خوش نصیبی

اکھاں وچہ اتھرو نہیں رُکدے درداں نے گھیرا پایا اے

متفرق اشعار

کچھ ایسی لطف و کرم کی ہوا چلی تازہ

جو پست پست کیا عاصیوں کو وحشت نے

جو مجھے چاہیے سب کا سب چاہیے