تھے عالی مرتبہ سب انبیاء اوّل سے آخر تک

تھے عالی مرتبہ سب انبیاء اوّل سے آخر تک

مگر سرکار سا کوئی نہ تھا اوّل سے آخر تک


نکل آئیں گے حل سب مسئلوں کے چند لمحوں میں

حیاتِ مصطفےٰ کو سوچنا اوّل سے آخر تک


اُتارے جسم و جاں پر سارے موسم شادمانی کے

بدل دی شہرِ ہستی کی فضا اوّل سے آخر تک


جنہیں اُمی لقب کہہ کر زمانہ یاد کرتا ہے

وہی ہیں حامل علم خدا اوّل سے آخر تک


فرشتوں نے مری لوحِ عمل پر روشنی رکھ دی

ثناء خوانِ محمد لکھ دیا اوّل سے آخر تک


ملی ہے کاسہء فن کو مرے خیرات طیبہ سے

مرا دیوان ہے اُن کی عطا اوّل سے آخر تک


بہارِ نعت سے باغ سخن لہکا صبیح ؔ ایسا

تر و تازہ رہی فصلِ نوا اوّل سے آخر تک

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

جو کسی کسی کا نصیب ہے

کیا کریں محفلِ دِلدار کو کیونکر دیکھیں

وہاں حضور کے خدّامِ آستاں جائیں

تعریف کی خاطر ہے نہ شہرت کے لیے ہے

لب پہ جاری جو ذکرِ نبی ہو گیا

آخر نگہ میں گُنبدِ اَخضَر بھی آئے گا

زیارت ہو مجھے خیر البشر کی

ایسا تجھے خالق نے طرحدار بنایا

نہ مال اولاد دا صدقہ نہ کاروبار دا صدقہ

شاہا دوجہاں میں ہے شہرہ تری رحمت کا