ٹوٹے دلوں کو صبر و شکییائی دے گیا

ٹوٹے دلوں کو صبر و شکییائی دے گیا

ہر منظر حیات کو رعنائی دے گیا


احمد تھا اور خالق اکبر کا شاہکار

حامد تھا اور حمد کو گہرائی دے گیا


ہر غیب اک شہود تھا جس شخص کے لئے

وہ رحمت تمام تھا بینائی دے گیا


حرف و بیاں میں جس کو سمیٹا نہ جا سکے

وہ شخص کائنات کو گویائی دے گیا


وحشت کدے میں صاحب معراج آدمی

انسانیت کو انجمن آرائی دے گیا


غیروں کے حق میں حرف شفا جس کی بات تھی

اصحاب باصفا کو مسیحائی دے گیا


وہ صادق و امین تھا کشفی، خدا گواہ

جو اپنے یار غار کو سچائی دے گیا

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ نبی کا

گل وچ سوہندی مدنی پی دی نسبت والی گانی ہو

دیکھے ترا جلوہ تو تڑپ جائے نظر بھی

سرکارِ مدینہ کی عظمت کو کیا سمجھے کوئی کیا جانے

رنگ بہاراں تھاں تھاں سُٹّے

یا محمد دو جہاں میں آپ سا کوئی نہیں

قرآں کا حرف حرف ہر آیت پسند ہے

دنیا کی نہ کوئی حرص ہمیں رکھتے ہیں نہ ہم دنیا سے غرض

جو بھیک لینے کی عشاق جستجو کرتے

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی