تو اوجِ رسالت ہے، شہِ خیر امم ہے

تو اوجِ رسالت ہے، شہِ خیر امم ہے

تو وہ ہے کہ زیبا جسے ہر جاہ وحشم ہے


خالق نے بنایا تجھے ہر چیز کا مولا

کونین کی ہر شے تری ممنون کرم ہے


ادراک میں کس طرح سمائے تری عظمت

ہر رفعتِ افلاک ترا نقشِ قدم ہے


گونجے ہیں زمانے میں تیرا اسمِ گرامی

قائم ہے تو اس نام سے کچھ اپنا بھرم ہے


آنے سے تیرے دور ہوئے ظلم کے سائے

تو عدل کا انصاف کا لہراتا علم ہے


خالق نے سکھایا مجھے مدحت کا سلیقہ

محبوبِ دو عالم کی عطا میرا قلم ہے


زندہ ہے جو اس عہد پَر آشوب میں نقوی

یہ تیری دعا ہے، تری نظر، تیرا کرم ہے

شاعر کا نام :- آفتاب نقوی

دیگر کلام

لطفِ شہؐ سے دل مرا آباد ہے

کی پُچھدا ایں میرا حال مدینے جاوندیا

ہر اِک ذرّہ جہاں کا جانتا ہے

لوحِ دل بے حرف ہے اس پر لکھا کچھ بھی نہیں

سرکارِ دو عالم کے دیکھو ہر سمت نظارے ہوتے ہیں

خدا کی راہ پر سب کو چلانے آ گئے آقا

کِس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اُجالا کیا ہے

گدا ہاں سوہنے دا سوہنے دے در صدا دیواں

اے جود و عطا ریز

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شانِ جمال