تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

کوئی منزل نہ راستہ ہوتا


ہم کو صحرا نگل گئے ہوتے

گر نہ رہبر وہ نقشِ پا ہوتا


غم زمانے کے مار ہی دیتے

گر تمہارا نہ آسرا ہوتا


اذن پاتے ہی جسم سے پہلے

دل مدینے کو جا چکا ہوتا


شوق میرا اڑان یوں بھرتا

تیرے قدموں میں جا گرا ہوتا


رات کتنی حسین ہو جاتی

خواب ہی میں تو آگیا ہوتا


دن بھی میرا نکھر نکھر جاتا

رات یادوں میں جاگتا ہوتا


میرا مرنا بھی سہل ہو جاتا

تو دمِ نزع آ گیا ہوتا


عمر یوں ہی تمام ہو جاتی

نوری وقفِ ثنا رہا ہوتا

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

کس نے سمجھا قرآن کا ماخذ

ترا وجود ہے روشن پیام خوشبو ہے

میری خطا دے ول نہ جا اپنی عطا دی لاج رکھ

کیوں نہ پُھوٹے مری رگ رگ سے اُجالا تیرا

نبی اے باقی جہان فانی

میرے محبوب دو گھڑیاں میرے ولے وی آجاؤ

جن کو ان سے پیار ہو گیا

مدینے کی زمیں کتنی حسیں معلوم ہوتی ہے

کون ہوں پہلے جان لے سورج

روزِ ازل خالق نے جاری پہلا یہ فرمان کیا