کیوں نہ پُھوٹے مری رگ رگ سے اُجالا تیرا

کیوں نہ پُھوٹے مری رگ رگ سے اُجالا تیرا

اوڑھ رکّھا ہے مِرے جسم نے سایا تیرا


لگ گئی ہیں مرے چہرے پہ ہزاروں آنکھیں

پڑ گیا جب سے مرے ذہن پہ پردا تیرا


رشک کرتی ہیں زمانے کی ہوائیں مُجھ پر

میری شمعوں کو لیے پھرتا ہے جھونکا تیرا


کوئی آہٹ مجھے گمراہ نہیں کر سکتی

ثبت ہر سانس پہ ہے نقشِ کفِ پا تیرا


تشنگی ، جب تری رحمت کو صدا دیتی ہے

مرے ہونٹوں سے لپٹ جاتا ہے دریا تیرا


مَیں نے چاہا تجھے ، یہ بھی ہے نوازش تیری

ورنہ ہر ایک کو صدقہ نہیں مِلتا تیرا


میری حیثیتِ اظہارِ محبّت کیا ہے

چاند مشتاق تِرا ، ابر بھی پیاسا تیرا


عرشِ اعظم کی یہ تصویر بنا سکتا ہے

روضہ دیکھا ہے مظفؔر نے بھی آقا تیرا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

ساری عمر دی ایہو کمائی اے

کاگا سب تن کھائیو

جو عہد کیا تھا آقاؐ سے وہ عہد نبھانے والا ہوں

خدایا بے پراں نوں پر لگا دے

چلو دیار نبیﷺ کی جانب

میرا بادشاہ حسین ہے

خدا کا فضل برسے گا کبھی مایوس مت ہونا

ہم مدینے سے اللہ کیوں آگۓ

ئیں کوئی اوقات او گنہار دی

مجھ کو شہرِ نبی کا پتہ چاہئے