تمہارے مقدَّر پہ رشک آ رہا ہے

تمہارے مقدَّر پہ رشک آ رہا ہے

مدینے کا تم کو بُلاوا ملا ہے


خدا اور نبی کا کرم ہو گیا ہے

سفر سوئے طیبہ مِری آل کا ہے


سبھی بچّیوں کے بَہمراہ ماں باپ

چلا حج کو ننّھا سا یہ قافلہ ہے


خدائے محمد ہو حامی و ناصر

سفر خیریت سے ہو میری دعا ہے


زُبان اور آنکھوں کا قفلِ مدینہ

لگا لو تمہارا اِسی میں بھلا ہے


تم اِحرام میں خوب لبیک پڑھنا

ثواب اس میں لا ریب حد سے سوا ہے


حجازِ مقدّس کی گلیوں میں ہر گز

نہ تم تُھوکنا یہ مِری التجا ہے


ادب خوب مکّے مدینے کا کرنا

یہی اولیا کا طریقہ رہا ہے


جو ہے باادب وہ بڑا بانصیب اور

جو ہے بے ادب وہ نہایت بُرا ہے


نظر پیارے کعبے پہ پہلی پڑے جب

تو رو رو کے کرنا دعا مشورہ ہے


وہاں خوب رو رو کے کرنا دُعائیں

کہ در ہر گھڑی رحمتوں کا کھلا ہے


نظر سبز گنبد کو جس وقت چُومے

ادب سے جھکا لینا سر اِلتجا ہے


دُرُود و سلام اورنعتوں کی دھومیں

مچانا کہ یہ رُوح و دل کی غِذا ہے


عبادت ریاضت تلاوت سے غفلت

نہ کرنا کہ موقَع سُنہری مِلا ہے


مدینے میں مکّے میں اِک ایک قراٰں

جو کرتا ہے ختم اُس کی تو بات کیا ہے!


خریداریوں میں تم انمول اوقات

نہ ہرگز گنوانا مِرا مشورہ ہے


بَہُت کھانے پینے سے پرہیز کرنا

کہ بِسیار خوری میں نقصاں بڑا ہے


پریشانیوں میں زُباں بند رکھنا

کئے جانا صَبْر اَجْر اس میں بڑا ہے


کوئی جھاڑ دے تب بھی نرمی بَرَتنا

کئے جانا صَبْر اَجر اِس میں بڑا ہے


گو آفات و اَمراض ڈیرا جمائیں

کئے جانا صَبْر اَجْر اِس میں بڑا ہے


طواف و سعی گرچِہ تم کو تھکا دیں

کئے جانا صَبْر اَجْر اِس میں بڑا ہے


مِنیٰ اور عَرفات میں بھیڑ ہو گی

کئے جانا صَبْر اَجْر اِس میں بڑا ہے


دعاؤں میں عطاّرؔ کو یاد رکھنا

سلام اُن سے کہنا یِہی اِلتجا ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

سرکارِؐ دو عالم کی ہوئی کیسی عطا ہے

یہیں آنکھ انسانیت کی کھلی ہے

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

عکسِ عہدِ نبیؐ دکھانے لگے

ہے آمدِ سعید شہِ کائنات کی

مٹا دل سے غمِ زادِ سفر آہستہ آہستہ

کبھی تو قافلہ اپنا رواں سُوئے حرم ہو گا

طیبہ میں سدا صبُحِ مسلسل کا سماں ہَے

لبوں پر درود و سلام آ رہے ہیں

نبی کا ذکر ہوتا ہے بحمد اللہ مرے گھر میں