واللہ کامرانی کا رستہ ہے سامنے

واللہ کامرانی کا رستہ ہے سامنے

یعنی نبی کا نقشِ کفِ پا ہے سامنے


وہ بالیقین دونوں جہاں میں ہے کامیاب

جس کے عمل میں آپ کا اسوہ ہے سامنے


بوئے دیارِ پاک ہے ہر سانس میں بسی

جب سے بہارِ گلشنِ طیبہ ہے سامنے


کیسے ہٹے نگاہ کہ بھرتا نہیں ہے جی

حسن و جمالِ روضۂ آقاؐ ہے سامنے


فکرِ جہاں ہے اور نہ تشویشِ آخرت

راحت رسانِ قلب، مدینہ ہے سامنے


پیشِ نگاہ شہرِ نبیؐ کی ہیں رونقیں

آسودگیِ دل کا نظارہ ہے سامنے


اب دور کر لے اپنی تو ساری کثافتیں

اے دل غبارِ راہِ مدینہ ہے سامنے


پاسِ ادب نہ کھو دے کہیں اضطرابِ شوق

اے دل سنبھل کہ گنبدِ خضریٰ ہے سامنے


بد بخت ہیں جو طیبہ میں رہ کر ہیں تشنہ لب

حالاں کہ فیض آقا کا دریا ہے سامنے


زاہد سے کہہ دو چھیڑے نہ باغِ جناں کا ذکر

احسؔن ابھی تو منظرِ بطحا ہے سامنے

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

اے حضورِ پاک مجھ کو نیک نامی دیجئے

صَلِّ عَلےٰ نَبِیِّناَ صَلِّ عَلےٰ مُحَمَّدٍ

در چھڈ کے کملی والے دا در غیر دے جانا ٹھیک نہیں

تھے عالی مرتبہ سب انبیاء اوّل سے آخر تک

شربتِ دیدار پیاسوں کو پلاتے ہیں ضرور

کونین کی سطوت کی نظر لے کے چلا ہوں

حالِ دل کس کو سنائیں

دونوں عالم مِلک جن کی اور غذا نان جویں

آخِری روزے ہیں دل غمناک مُضطَر جان ہے

ہو جائے حاضری کا جو امکان یا رسول