یا شہِ ارض و سما امداد کو آجائیے

یا شہِ ارض و سما امداد کو آجائیے

ہے کورونا کی وبا اِمداد کو آ جائیے


سخت حیرانی پریشانی عجب سا خوف ہے

خَلق کے حاجت روا امداد کو آجائیے


ساری دنیا میں ہے پھیلی یہ کورونا کی وبا

بڑھ رہا ہے سِلسلہ اِمداد کو آجائیے


دن وہ دیکھے ہیں کہ کعبے میں بھی ہیں خاموشیاں

اک عجب ہے ماجرا امداد کو آ جائیے


اولیاء اللہ کے دربار بھی سُونے ہُوئے

ہے یہ کیسا المیہ امداد کو آ جائیے


ہے تجارت میں خلل تدریس بھی موقوف ہے

خوف ایسا چھا گیا امداد کو آ جائیے


زائرینِ مکہ و طیبہ بڑے غمگین ہیں

ہِجر کا ہے سامنا امداد کو آ جائیے


سب غلاموں کو خلاصی ہو کورونا سے عطا

خوف کا ہو خاتمہ امداد کو آ جائیے


آپ جو چاہیں خدا کے فضل سے تو خیر ہے

درد ہوجائے دوا امداد کو آ جائے


عرض کرتا ہے یہ مرزا بس کرم آقا کرم

دافعِ رنج و بلا امداد کو آ جائیے

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

جلوہ گر کونین میں آقا کی طلعت ہو چکی

مدینے کو جاؤں مِری جستجو ہے

یانبی لب پہ آہ و زاری ہے

آواز پانچ وقت لگاتی ہے مومنوں

فاصلے جتنے ہیں سرکار مٹائیں گے ضرور

مرحبا کیا شان کیا رُتبہ ترا

اجاڑ کب سے پڑا ہے اداس غرفۂ دل

اُجالے کیوں نہ ہوں دیوار و در میں

عالم کی ابتداء بھی ہے تُو

اُن کی سیرت سے آگہی ہوگی