یاد محبوب کو سینے میں بسا رکھا ہے
دل کے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے
ہے یقیں مجھ کو مرے گھر میں بھی آئیں گے حضور
میں نے یادوں کے دریچوں کو کھلا رکھا ہے
حسن محبوب کے اعجاز پہ صدقے جاؤں
اپنے دیوانے کو فرزانہ بنا رکھا ہے
مجھ کو تسلیم گنہگار ہوں لیکن واعظ
یہ بھی تو دیکھ کہ دل کس سے لگا رکھا ہے
کتنے خوش بخت ہیں جو در پہ ہیں تیرے حاضر
میرے آقا مجھے کیوں در سے جدا رکھا ہے
بادشاہوں کو بھی لاتا نہیں خاطر میں کبھی
جس نے سر آپ کی چوکھٹ پہ جھکا رکھا ہے
تیری آمد کی مجھے آس لگی رہتی ہے
تیری راہوں میں نگاہوں کو بچھا رکھا ہے
کب زمانے کی ہوا اُس کو بجھا سکتی ہے
جو محبت کا دیا میں نے جلا رکھا ہے
ذکر محبوب خدا کا ہے نیازی صدقہ
مجھ کو دنیا نے نگاہوں میں بٹھا رکھا ہے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی