یہ جو عشّاق ترے طیبہ میں آئے ہوئے ہیں

یہ جو عشّاق ترے طیبہ میں آئے ہوئے ہیں

اپنی تقدیر ترے در پہ جگائے ہوئے ہیں


سر پہ رکھے ہوئے ہیں عیب کی گٹھری لیکن

سُن کے جاءوک وہ امید لگائے ہوئے ہیں


ہم سے ناکارہ و مجرم بھی ہیں مہمانوں میں

اور کچھ خاص ترے پیارے بھی آئے ہوئے ہیں


یہ تری آل کے گوہر، یہ ترے نُورِ نظر

بندہ پرور ہیں ہمیں ساتھ جو لائے ہوئے ہیں


کیسی چاہت ہے محبت ہے ادب ہے ان میں

اپنی آنکھیں ترے گنبد پہ جمائے ہوئے ہیں


کون لائے گا بھلا ان کی بصیرت کا جواب

خاکِ رہ تیری جو آنکھوں میں لگائے ہوئے ہیں


یہ تصور ہے مرا میں ہوں انہیں میں شامل

وہ جو قسمت سے ترے شہر میں آئے ہوئے ہیں


دور بیٹھا ہوا نوری بھی ہے دیدادر طلب

ان کا نوکر جو ترے آپ بلائے ہوئے ہیں

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

آنکھیں رو رو کے سُجانے والے

بڑی اُمید ہے سرکارﷺ قدموں میں بُلائیں گے

کہاں مَیں کہاں آرزوئے مُحمدؐ

خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیرالبشرؐ

یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے

حضور! ایسا کوئی انتظام ہو جائے

میرا دل اور میری جان مدینے والے

حقیقت میں وہ لطفِ زندگی پایا نہیں کرتے

مجھے بھی سرخابِ حرف کا پر ملا ہوا ہے

آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی