زمانہ نے زمانہ میں سخی ایسا کہیں دیکھا

زمانہ نے زمانہ میں سخی ایسا کہیں دیکھا

لبوں پر جس کے سائل نے نہیں آتے نہیں دیکھا


مصیبت میں جو کام آئے گنہگاروں کو بخشائے

وہ اِک فخرِ رُسل محبوبِ رَبّ الْعَالَمِیْں دیکھا


بنایا جس نے بگڑوں کو سنبھالا جس نے گرتوں کو

وہ ہی حَلَّالِ مشکل رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْں دیکھا


وہ ہادی جس نے دنیا کو خدا والا بنا ڈالا

دِلوں کو جس نے چمکایا عرب کا مہ جبیں دیکھا


بسے جو فرش پر اور عرش تک اس کی حکومت ہو

وہ سلطانِ جہاں طیبہ کا اِک ناقہ نشیں دیکھا


وہ آقا جو کہ خود کھائے کھجوریں اور غلامو ں کو

کھلائے نعمتیں دنیا کی کب ایسا کہیں دیکھا


بھلا عالم سی شے مخفی رہے اس چشمِ حق بیں سے

کہ جس نے خالقِ عالم کو بے شک بالیقیں دیکھا


مسلمانی کا دعویٰ اور پھر توہین سروَر کی

زمانہ نے زمانہ بھر میں کب ایسا لعیں دیکھا


ہو لب پر اُمتی جس کے کہیں جب اَنبیا نفسی

دوعالم نے اُسے سالکؔ شَفِیعُ الْمُذْنِبِیْں دیکھا

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

جنہیں خلق کہتی ہے مصطفیٰ

جوت سے ان کی جگ اُوجیالا

خاکِ مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا

خالقِ ُکل اے ربِ ُعلیٰ

دِل اس ہی کو کہتے ہیں جو ہو ترا شیدائی

کہاں ہو یَا رَسُوْلَ اللہ کہاں ہو

ماہِ رَبیعُ الاوّل آیا

نورِ حق جلوہ نما تھا مجھے معلوم نہ تھا

وہ بندۂ خاص خدا کے ہیں اور ان کی ساری خدائی ہے

ہم گو ہیں برے قسمت ہے بھلی