دِل اس ہی کو کہتے ہیں جو ہو ترا شیدائی

دِل اس ہی کو کہتے ہیں جو ہو ترا شیدائی

اورآنکھ وہ ہی ہے جو ہو تیری تماشائی


کیوں جان نہ ہو قرباں صدقہ نہ ہو کیوں اِیماں

اِیمان ملا تم سے اور تم سے ہی جاں پائی


خلقت کے وہ دُولہا ہیں محفل یہ انہی کی ہے

ہے ان ہی کے دَم سے یہ سب اَنجمن آرائی


یاشاہِ رُسل چشمے بر حالِ گدائے خود

کزحالِ تباہ وے دانائی و بینائی


بے مثل خدا کا توبے مثل پیمبر ہے

ظاہر تری ہستی سے اللہ کی یکتائی


آقاؤں کے آقا سے بندوں کو ہو کیا نسبت

اَحمق ہے جو کہتا ہے آقا کو بڑا بھائی


سینہ میں جو آجاؤ بن آئے مرے دل کی

سینہ تو مدینہ ہو دل اس کا ہو شیدائی


دل تو ہو خدا کا گھر سینہ ہو ترا مسکن

پھر کعبہ و طیبہ کی پہلو میں ہو یک جائی


اس طرح سما مجھ میں ہوجاؤں میں گم تجھ میں

پھر تو ہی تماشا ہو اور تو ہی تماشائی


اس سالکِؔ بیکس کی تم آبرو رکھ لینا

محشر میں نہ ہو جائے آقا کہیں رُسوائی

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

اعزاز ہے اس در کی گدائی تو عجب کیا

سو بار گناہوں سے جو دل اپنا بچائے

تسلیم کر لئی جنہاں عظمت حضور دی

جسے ان کے در کی گدائی ملی ہے

تری نسبت ملى الحمد الله

اس خوش نصیب شخص کو رب کا سلام ہے

سہارا چاہیے سرکار ﷺ زندگی کے لۓ

مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہر آنے والا ہے

شہنشاہ عالم رسول مکرم محمد حبيب خُدا الله الله

سرکارؐ! اساں مسیکناں دی کیوں دُور مُصیبت نہیں ہوندی