جسے ان کے در کی گدائی ملی ہے

جسے ان کے در کی گدائی ملی ہے

اسے پھر کسی چیز کی کیا کمی ہے


وہ شمس الضحیٰ ہیں وہ بدر الدجیٰ ہیں

جو پھیلی ہے ہر سُو یہی روشنی ہے


بہار اُن کے دم سے ہے ہر دم چمن میں

اُنہی کی بدولت کھِلی ہر کَلی ہے


نہ در اُن کے در سا کوئی ہے جہاں میں

نہ اُن کی گلی جیسی کوئی گلی ہے


مِلا ہے مجھے جب سے سرکار کا غم

مرے چار جانب خوشی ہی خوشی ہے


پکاروں نہ کیوں اپنے آقا کو آصف

’’اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے‘‘

شاعر کا نام :- محمد آصف قادری

کتاب کا نام :- مہرِحرا

دیگر کلام

میٹھا مدینہ دور ہے جانا ضَرور ہے

سنہری جالی کی ضو فشانی

بیٹھتے اُٹھتے نبیؐ کی گفتگو کرتے رہے

راحتِ قلب و جاں رحمت بیکراں سرور مرسلان تو کہاں میں کہاں

بِالیقیں اُس کو تو جینے کا قرینہ آگیا

یاخدا ہر دَم نگہ میں اُن کا کاشانہ رہے

مصروف صبح و شام ہیں ان کی عطا کے ہاتھ

آمد مصطفیٰ اللہ اللہ گونجے ہر سو ترانے خوشی کے

لب وا کیئے تھے رکھ کے محمدؐ کے در پہ ہاتھ

آپ کی نسبت اے نانائے حُسین