میٹھا مدینہ دور ہے جانا ضَرور ہے

میٹھا مدینہ دور ہے جانا ضَرور ہے

جانا ہمیں ضَرور ہے جانا ضَرور ہے


راہِ مدینہ کے سبھی کانٹے ہیں پھول سے

دیوانہ باشُعُور ہے جانا ضَرور ہے


ہوتا ہے سخت اِمتِحاں الفت کی راہ میں

آتا مگر سُرور ہے جانا ضَرور ہے


عشقِ رسول دیکھئے حبشی بِلال کا

زخموں سے چور چور ہے جانا ضَرور ہے


پُر خار راہ پاؤں میں چھالے بھی پڑ گئے

اِس میں بھی اِک سُرور ہے جانا ضَرور ہے


ہمّت جواب دے گئی سرکار المدد!

زائر تھکن سے چُور ہے جانا ضَرور ہے


کیوں تھک گئے پلٹ گئے بھائی! بتایئے؟

یہ آپ کا قُصُور ہے جانا ضَرور ہے


جو راہِ طیبہ کی ہیں ڈراتی صعوبتیں

یہ نفس کا فُتُور ہے جانا ضَرور ہے


عُشّاق کو تو ملتی ہے غم میں بھی راحت اور

آتا بڑا سُرور ہے جانا ضَرور ہے


سرکار کا مدینہ یقینا بِلاشُبہ

قلب و نظر کا نورہے جانا ضَرور ہے


منظر حَسین و دلکشا اُن کے دِیار کا

ہاں دیکھنا ضَرور ہے جانا ضَرور ہے


دیکھوں گا جاکے گنبدِ خَضرا کی میں بہار

روضہ وطن سے دور ہے جانا ضَرور ہے


مِحراب و مِنبر آپ کے ڈوبے ہیں نور میں

جالی بھی نور نور ہے جانا ضَرور ہے


چادر تنی ہے گنبدِ خَضرا پہ نور کی

مینار نور نور ہے جانا ضَرور ہے


پُر نور ہر پہاڑ تو طیبہ کی خاک کا

ہر ذرّہ رشکِ طُور ہے جانا ضَرور ہے


شاہ و گدا فقیر و غنی ہر کسی کا سر

خَم آپ کے حُضورہے جانا ضَرور ہے


بِہتر اِسی برس ہو تو جلدی بُلایئے

یہ التِجا حُضور ہے جانا ضَرور ہے


مرضی تمھاری تم سنو یا مت سنو مگر

اپنی تو رَٹ حُضُور ہے جانا ضرور ہے


عطارؔ قافِلہ تو گیا تم بھی اُٹھ چلو

منزِل اگرچِہ دُور ہے جانا ضَرور ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

فضل ربِ العلی اور کیا چائیے

یا نبی نسخہ تسخیر کو میں جان گیا

مجھ کو تو اَپنی جاں سے بھی

جو لب پہ خیر الوریٰ ؐ کے آیا

قطرہ مانگے جو کوئی

اپنا غم یاشہِ انبیا دیجئے

بطحا سے آئی، اور صبا لے گئی مجھے

گدائے کوئے حبیبؐ ہوں ملا ہے کیا دم بدم نہ پوچھو

جب دور سے طیبہ کے آثار نظر آئے

چلّیے مدینے سارے چھڈ گھر بار دئیے