یاخدا ہر دَم نگہ میں اُن کا کاشانہ رہے

یاخدا ہر دَم نگہ میں اُن کا کاشانہ رہے

دونوں عالم میں خیالِ رُوئے جانانہ رہے


اے عرب کے چاند تیرے ذَرّے کاذَرَّہ ہوں میں

تا اَبد پرنور میرے دِل کا کاشانہ رہے


کیوں مُعَطَّر ہو نہ خوشبو سے دوعالم کا دِماغ

پنجۂ قدرت ترے گیسو کا جب شانہ رہے


جس مکاں کی اپنے پائے پاک سے عزت بڑھائیں

کیوں نہ سب اَمراض کا وہ گھر شفاخانہ رہے


زندگی میں بعدِ مردَن اُن کے نام پاک سے

یاخدا آباد میرے دِل کا وِیرانہ رہے


عین اِیماں ہے یہی اور ہے ہر اِک مومن پہ فرض

ان کے نامِ پاک کا دُنیا میں مستانہ رہے


وِردِ لب مِصْرَع ہو یہ جب سیر ہوں پیاسے تیرے

ساقیِ کوثر ترا آباد میخانہ رہے


مست اُن کے جھومتے ہیں جوش میں کہتے ہوئے

ساقیِ کوثر ترا آباد میخانہ رہے


کیوں جلائے نارِ دوزخ اس کو اے شمعِ ہدیٰ

جو فدا دنیا میں تم پر مثلِ پروانہ رہے


محوِ نظارہ رہیں تا حشر آنکھیں یاخدا

اور دلِ وَحشی رُخ و گیسو کا دیوانہ رہے


کر بلند ایسا علم اِسلام کا اے شاہِ دیں

مسجدیں آباد ہوں وِیران بت خانہ رہے


ہے جمیلؔ قادری کے وِردِ لب نعتِ نبی

بعد ُمردَن بھی لحد میں ذِکرِ جانانہ رہے

شاعر کا نام :- جمیل الرحمن قادری

کتاب کا نام :- قبائلۂ بخشش

دیگر کلام

دوستو! ہو سبیل جینے کی

ترِے شہرِ مقدّس پر تری رحمت کے

آگئے آج زمانے میں زمانے والے

اپنی ہستی حباب کی سی ہے

خدا کے حسن کا پُر نور آئینہ کیا ہے

آپؐ آئے مصطفائی کے لئے

زمین و آسمان جُھومے عقیدت کا سلام آیا

مقصودِ زندگی ہے اِطاعت رسوؐل کی

ذکرِ سرکارؐ سے جب ذہن ترو تازہ ہو

روح سکون پائے گی قلب بھی ہوگا مطمئن