ترِے شہرِ مقدّس پر تری رحمت کے

ترِے شہرِ مقدّس پر تری رحمت کے سائے ہیں

اسی امید پر آقاؐ! تری چوکھٹ پہ آئے ہیں


مری بخشش کی کچھ صورت نکل آئے گی اس در پر

گناہوں سے بھری گٹھڑی تبھی تو باندھ لائے ہیں


یہ بخشش ہے نصیب اس کا ترِے در پر جو آ پہنچا

کہ جس کے واسطے توُ نے یدِ رحمت اٹھائے ہیں


مرے دکھ کا مداوا تو ترے بن ہو نہیں سکتا

کہ میری روح نے فرقت میں صدہا زخم کھائے ہیں


لحد میں جب پریشاں تھا مرِے آقاؐ تو پھر اس دم

ترِے در کی غلامی کے وہ لمحے کام آئے ہیں


لحد میں جن غلاموں نے مرے آقاؐ کو پہچانا

تو چہرے ان غلاموں کے خوشی سے تمتمائے ہیں


اس اُمّت پر کرم کیجے ،بڑی مشکل میں ہے اس دم

غم و اندوہ کے بادل ہمارے سر پہ چھائے ہیں


محافل تیری یادوں کی جہاں سجتی رہیں آقاؐ!

تو گھر ان خوش نصیبوں کے ہمیشہ جگمگائے ہیں


جلیلِ بے نوا پر بھی حضورؐ اپنا کرم کر دیں

کہ اس مشکل میں اس کے تو سبھی اپنے، پرائے ہیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

دیگر کلام

اک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہﷺ

بڑی دیر کی ہے تمنا، الہٰی مجھے بھی دکھا دے دیارِ مدینہ

بتوں کے آگے نہ سر جھکانا

تسلیم کر لئی جنہاں عظمت حضور دی

عاشق کو بھا سکے گی نہ رنگِ چمن کی بات

میں لجپالاں کریماں دے دوارے تے صدا کرنا

اوہ وی ویلا آوے یار میں مدینے ہوواں

کوئی عاصی نئیں میں ورگا میں مناں یا رسول اللہ

کوئی اج ٹریا کوئی کل ٹریا اس جگ دی ریت پرانی ایں

نبی کا عشق ہے دل میں وفا مدینے کی